Type a search term to find related articles by LIMS subject matter experts gathered from the most trusted and dynamic collaboration tools in the laboratory informatics industry.
چینی زبان دنیا کی تمام زبانوں سے مختلف تھی اور ہے، اس میں نہ حروف تہجی ہیں، نہ ہجّے، نہ قواعد اور نہ الفاظ کی تقسیم ایک ہی لفظ اپنے سیاق و سباق، مضمون اور لہجے کے اعتبار سے اسم ذات، اسم صفت، فعل اور حال ہو سکتا ہے۔ ہر ایک ”یک ہجّائی“ لفظ چار سے نو لہجوں تک ادا کیا جا سکتا ہے اور جس لمحے میں وہ ادا ہوا ہے اس لحاظ سے اس کے معنی میں بھی فرق ہوتا ہے اُن کے لکھنے کا طریقہ بھی عجیب ہے، سطریں افقی کی بجائے عمودی ہوتی ہیں۔ چینی زبان میں عام بول چال کے لیے دوسے تین ہزار الفاظ استعمال ہوتے ہیں، اخبار یا معمولی کتاب پڑھنے کے لیے ساڑھے تین ہزارنشانوں کا جاننا ضروری ہے، ایک یونیورسٹی کے طالب علم کو چھ ہزار نقوش سیکھنے پڑتے ہیں، جبکہ ایک چینی ٹائپ رائٹر اور کمپیوٹرمیں پندرہ سے بیس ہزارعلامتیں کام آتی ہیں۔ چینی زبان تحریر کرنے کے لیے ہر لفظ آڑھی ترچھی لکیروں سے مل کر بنتا ہے جنہیں Stroke کہا جاتا ہے، بنیادی طور پرچینی خط میں 12 اسٹروک استعمال ہوتے ہیں۔
ماہر لسانیات چینی زبان کو چینی تبتی زبان کی ایک شاخ مانتے ہیں۔ چینی زبان برمی زبان، تبتی زبان اور سلسلہ کوہ ہمالیہ میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کی بہن ہے۔ چینی تبتی زبانوں کا سلسلہ کوہ ہمالیہ کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا میں بھی چلا ہے۔[1] چینی تبتی زبانوں کے سلسلہ میں دی جانے والی تھیوری اب بہت حد تک مقبول ہے۔ چینی تبتی زبانیں ہند یورپی زبانیں اور جنوبی ایشیائی زبانیں کی طرح زیادہ ترقی پزیر نہ ہو سکی۔ چینی تبتی زبانیں نسبتاً مشکل ہے اور ان میں آپسی تنوع بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے آپسی رابطہ بھی بہت کم ہے۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ میں بولی جانے والی اکثر زبانیں بہت مشکل ہیں۔ ان تک رسائی بھی آسان نہیں ہے۔ سرحدی مشکلات کی وجہ سے آپسی میل جول بھی کم ہے۔[2] [3] [4]
چینی زبان کا پہلا تحریری دستاویز 3000 سال قبل شانگ خاندان کے عہد حکومت میں ملتا ہے۔ اس کے بعد یہ زبان عہد بہ عہد پھلتی پھولتی رہی اور اس کے کئی علاقائی لہجات بن گئے۔ چینی حکومت ہمیشہ ایک لہجہ پر زور دیتی رہی ہے تاکہ ملک بھر میں کم از کم ایک زبان اور ایک لہجہ سب سمجھ سکیں۔[5]