Type a search term to find related articles by LIMS subject matter experts gathered from the most trusted and dynamic collaboration tools in the laboratory informatics industry.
شعار: | |
ترانہ: | |
دار الحکومت | ایڈنبرا |
سرکاری زبانیں | انگریزی |
نسلی گروہ | 95.48% سفید برطانوی، 2.71% دیگر سفید، 1.8% دیگر[1] |
آبادی کا نام | سکاٹش یا اسکاٹس3 |
حکومت | Devolved government within a آئینی بادشاہت4 |
• بادشاہت | الزبتھ دوم |
Alex Salmond MSP | |
ڈیوڈ کیمرن، MP | |
مقننہ | سکاٹش پارلیمنٹ |
Establishment Early Middle Ages; exact date of establishment unclear or disputed; traditional 843, by کینتھ مک ایلپن[2] | |
رقبہ | |
• کل | 78,387 کلومیٹر2 (30,265 مربع میل) |
• پانی (%) | 1.9 |
آبادی | |
• mid-2011 تخمینہ | 5,254,800[3] |
• 2001 مردم شماری | 5,062,011 |
• کثافت | 65.9/کلو میٹر2 (170.7/مربع میل) |
جی ڈی پی (برائے نام) | 2010 تخمینہ |
• کل | GBP 139.774 billion[4] |
• فی کس | 26,766 |
کرنسی | پاؤنڈ اسٹرلنگ (GBP) |
منطقۂ وقت | یو ٹی سی0 (GMT) |
• گرمائی (ڈی ایس ٹی) | یو ٹی سی+1 (BST) |
تاریخ فارمیٹ | dd/mm/yyyy (AD or CE) |
ڈرائیونگ سائیڈ | left |
کالنگ کوڈ | 44 |
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈی | مملکت متحدہ5 |
|
اسکاٹ لینڈ (scotland)، مملکتِ متحدہ کا ایک رکن ملک ہے۔ یہ ملک برطانوی جزیرے کے شمالی ایک تہائی حصے پر واقع ہے۔ اس کی سرحد جنوب کی طرف انگلستان جبکہ مشرق میں شمالی سمندر، مغرب اور شمال میں نارتھ چینل اور آئرش سمندر سے ملتی ہیں۔ اصل سرزمین کے علاوہ 790 چھوٹے جزائر بھی سکاٹ لینڈ کا حصہ ہیں۔
ایڈنبرا، اسکاٹ لینڈ کا دار الحکومت اور دوسرا بڑا شہر بھی ہے۔ یہ شہر یورپ کے بڑے تجارتی مراکز میں سے ایک ہے۔ ایڈنبرا کو ماضی میں سکاٹ لینڈ کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی لیکن اب گلاسگو جو سکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے، اس سے آگے نکل چکا ہے۔ سکاٹ لینڈ کی آبی حدود میں بحرِ منجمد شمالی کا ایک بڑا حصہ بھی آتا ہے۔ تیل کے ذخائر کے اعتبار سے سکاٹ لینڈ یورپی یونین میں سب سے آگے ہے۔ سکاٹ لینڈ کا تیسرا بڑا شہر ایبرڈین ہے جو یورپ میں تیل کا دار الحکومت کہلاتا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کی ریاست 1707ء تک ایک خود مختار ریاست تھی جسے بعد میں ذاتی پسند کی بنا پر انگلینڈ اور آئرلینڈ سے ملا دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جیمز ششم آف سکاٹ لینڈ بیک وقت ان دو ریاستوں کا بادشاہ بھی تھا۔ 17 مئی 1707ء کو سکاٹ لینڈ بھی اس الحاق میں شامل ہو گیا اور یہ سب ریاستیں مل کر ایک ملک بن گئیں۔ اس سلسلے میں 1706ء میں دونوں ریاستوں کی پارلیمانوں نے ایک قانون منظور کیا۔ تاہم اس الحاق کے خلاف سکاٹ لینڈ میں عام مظاہرے ہوتے رہے تھے۔ آج بھی سکاٹ لینڈ کا عدالتی اور قانونی نظام اور جرم و سزا انگلینڈ اور ویلز اور شمالی آئرلینڈ سے الگ ہے۔
سکاٹ لینڈ کا لفظ لاطینی کے لفظ سکاٹی سے نکلا ہے جو سکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کے بسنے والے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
موجودہ دور کے سکاٹ لینڈ کے مقام پر مسلسل گلیشئر بنتے اور پگھلتے رہے ہیں جس کی وجہ سے ابتدائی انسانی آبادی کے آثار مٹ چکے ہیں۔ اندازے کے مطابق آخری بار گلیشئروں کے ہٹنے کے بعد پہلی بار 12,800 سال قبل یہاں شکاری اور گلہ بان آئے اور بس گئے۔ 9,500 سال قبل یہاں انسانوں نے مستقل رہائش گاہیں بنانا شروع کر دی تھیں اور 6,000 سال قبل یہاں گاؤں بننے لگ گئے تھے۔ درختوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہاں کی زیادہ تر تعمیرات مقامی پتھروں سے بنائی گئی تھیں۔
سکاٹ لینڈ سے 4,000 سال قبل کا ایک پرانا مقبرہ ملا ہے جہاں مدفون نوادرات بھی موجود تھے۔ اس میں تانبے کے ابتدائی دور کے حکمران کی باقیات سفید کنکروں اور درخت کی چھال پر رکھی گئی تھیں۔ اس سے یہ بھی علم ہوا تھا کہ اس دور کے لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول رکھتے تھے۔
تحریر کردہ ابتدائی تاریخ رومن سلطنت کی آمد کے ساتھ سے شروع ہوتی ہے جب رومنوں نے انگلینڈ اور ویلز پر قبضہ کیا تھا۔ اس وقت رومنوں نے اسے برطانیہ کے صوبے کا نام دیا تھا۔
رومن مؤرخ ٹیسی ٹس کے مطابق سکاٹ لینڈ کے مقامی لوگوں نے رومنوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جد و جہد شروع کر دی تھی۔ یہ لوگ رومن قلعوں پر حملے اور فوج سے مسلح جھڑپیں کرتے رہتے تھے۔
83 تا 84 عیسوی میں جنرل جولیس اگریکولا کی زیرِ قیادت رومنوں کو فتح ہوئی۔
رومنوں نے قبائل کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک دیوار تعمیر کی۔
سکاٹ لینڈ کے کسی بھی قابلِ ذکر علاقے پر رومنوں کے قبضے کی مدت 40 سال سے زیادہ نہیں رہ سکی۔
مارچ 1286ء میں الیگزنڈر سوم کی وفات کے بعد ان کی نواسی کی بھی وفات ہوئی جس سے شاہی خاندان کا دو سو سال پرانا تسلسل ٹوٹ گیا۔ اس وجہ سے انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ اول سے درخواست کی گئی کہ وہ نئے بادشاہ کا انتخاب کریں۔ جان بلیول کو نئے بادشاہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ یہ انتخاب 17 نومبر 1292ء کو ہوا اور 30 نومبر 1292ء کو سینٹ اینڈریو کے یوم پر تاج پوشی کی رسم ادا کی گئی۔ تاہم انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ اول نے نئے بادشاہ کے ارادوں کو بھانپنے میں غلطی کی۔ کچھ عصے کے بعد نئے بادشاہ اور ان کے نائبین نے فرانس کے خلاف جنگ میں انگلستان کی فوج میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ سکاٹ لینڈ کی پارلیمان نے فرانس کی جانب وفود بھیجے تاکہ فرانس سے اتحاد کیا جا سکے۔ 23 اکتوبر 1295ء کو فرانس اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔ یہ معاہدہ 1295ء سے 1560 تک لاگو رہا۔ جنگ شروع ہوئی اور ایڈورڈ نے جان کو زبردستی نکال باہر کیا اور سکاٹ لینڈ پر قبضہ کر لیا۔ 1296ء تا 1328ء تک جاری سکاٹ لینڈ کی آزادی کی جنگ میں اینڈریو مرے اور ولیم ولیس مزاحمت کار رہنما بن کر ابھرے۔
انگلستان کے ساتھ جنگ کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ 1496ء کے تعلیمی ایکٹ کے نفاذ کے بعد قدیم رومن ملک سپارٹا کے بعد سکاٹ لینڈ پہلا ملک بنا جہاں عوام کے لیے تعلیمی نظام لاگو کیا گیا تھا۔ اس عرصے میں فرانس اور سکاٹ لینڈ کے تعلقات گہرے ہوتے چلے گئے تھے۔
سکاٹ لینڈ 16 صدی عیسوی میں آزاد ہوا۔ اس آزادی کے پیچھے بادشاہ جیمز چہارم کا ہاتھ تھا۔ 1502ء میں جیمز نے انگلینڈ کے ہنری ہفتم کے ساتھ باہمی امن کا معاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ اس نے جیمز کی بیٹی سے شادی بھی کی۔ اس طرح دونوں بادشاہتوں کے یکجا کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔
1603ء میں سکاٹ لینڈ کے بادشاہ جیمز ششم کو انگلستان کی سلطنت وراثت میں ملی۔ اس طرح وہ انگلینڈ کا بادشاہ جیمز اول بنا۔ 1690ء کے اواخر میں پڑنے والے قحط کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں کی آبادی کا پانچواں حصہ مر چکا تھا۔
1698ء میں سارے سکاٹ باشندوں نے پانامہ میں تجارتی آبادی کے سلسلے میں اپنی ساری جمع پونجی لگائی جو سکیم کے فیل ہونے پر پورے ملک کے دیوالیہ ہونے کا سبب بن گئی۔ نتیجتاً انھیں برطانیہ سے مدد مانگنی پڑی۔
22 جولائی 1706ء کو انضمام کا معاہدہ سکاٹ لینڈ اور انگلستان کے اراکین پارلیمان کے درمیان میں ہوا۔ اگلے سال دونوں پارلیمانوں نے بیک وقت انضمام کے قانون کو منظور کیا اور کنگڈم آف گریٹ برٹین یکم مئی 1707ء کو وجود میں آئی۔
برطانیہ کے تجارتی ٹیکس اب ختم ہو چکے تھے لہٰذا تجارت بالخصوص امریکا سے تجارت کو عروج ملا۔ 1776ء کی امریکی جنگِ آزادی سے قبل تک گلاسگو کی بندرگاہ دنیا بھر میں تمباکو کی تجارت کے لیے سب سے آگے تھی۔
صنعتی انقلاب کی بدولت سکاٹ لینڈ ذہانت، تجارت اور صنعتی طاقت کا مرکز بن گیا۔
سکاٹ لینڈ کو اس کی انجینئری کی مہارت مثلاً ریل کے انجن اور بحری جہازوں کی بدولت دنیا بھر میں اعلیٰ مقام ملا ہوا تھا۔ لوہے سے تیار شدہ مکانات کا استعمال آج بھی ہندوستان، جنوبی امریکا اور آسٹریلیا میں ہوتا ہے۔ اس دور کے مشہور سائنس دان، انجینئر اور آرکیٹیکٹ میں ڈیوڈ ڈیل، جوزف بلیک، تھامس ٹیل فورڈ، رابرٹ سٹیونسن، جیمز وٹ، جیمز نسمتھ، رابرٹ ایڈم اور جان میک ایڈم وغیرہ اہم مقام رکھتے ہیں۔
سکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے افراد نے امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی بنیاد اور تعمیر میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
سکاٹ لینڈ نے پہلی جنگِ عظیم میں برطانیہ کی طرف سے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ سکاٹ لینڈ نے افرادی قوت، بحری جہاز، مشینری، مچھلی اور رقم مہیا کی تھیں۔ 1911 کی 48 لاکھ کی کل آبادی میں سے سکاٹ لینڈ نے 6 لاکھ 90 ہزار سے زیادہ جوان جنگ میں بھیجے تھے۔ ان میں سے 74 ہزار جنگ یا بیماریوں سے ہلاک جبکہ ڈیڑھ لاکھ شدید زخمی ہوئے۔ فیلڈ مارشل سر ڈوگلس ہیگ برطانیہ کے مغربی محاذ کے کمانڈر تھے۔
جہاز سازی کی صنعت میں کافی پھیلاؤ آیا اور اس میں خوش حالی آئی۔ تاہم 1922ء میں آنے والے عظیم معاشی بحران کی وجہ سے اس صنعت کو گہرا دھچکا لگا اور 1939ء تک یہ پوری طرح بحال نہ ہو سکی۔ جنگوں کے درمیانی برسوں میں معاشی ترقی میں ٹھہراؤ آیا اور بے روزگاری کی شرح بلند ہوئی۔ بلاشبہ جنگ کی وجہ سے معاشرتی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی بدلاؤ آئے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران معاشی خوش حالی کے ساتھ ساتھ جرمن فضائیہ کی بمباری بھی لائی۔ اسی دوران میں برطانیہ نے ریڈار ایجاد کیا۔
1945ء کے بعد سے سکاٹ لینڈ کی معاشی حالت دوسرے ملکوں سے مقابلے، ناکافی صنعتوں اور صنعتی جھگڑوں کے باعث بتدریج بگڑنے لگی۔ حالیہ دہائیوں میں ملک میں کسی حد تک معاشی اور ثقافتی بحالی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔ معاشی بحالی کے سلسلے میں اہم عناصر میں معاشی خدمات کی صنعت، الیکٹرانکس کی تیاری اور شمالی سمندر میں تیل اور گیس کی صنعت شامل ہیں۔
سکاٹ لینڈ کا سربراہ برطانیہ کا بادشاہ یا ملکہ ہوتا ہے۔ اس وقت سربراہ کی حیثیت ملکہ الزبتھ دوم کو 1952 سے حاصل ہے۔ ملکہ الزبتھ دوم کی تاج پوشی کے وقت سکاٹ لینڈ میں ہلچل مچی کیونکہ سکاٹ لینڈ میں کبھی ملکہ الزبتھ اول رہی ہی نہیں۔ برطانیہ کے زیر انتظام سکاٹ لینڈ کو کسی حد تک حکمرانی کا حق ملا ہونے کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی پارلیمان میں بھی نمائندگی دی گئی ہے۔ ایگزیکٹو اور مقننہ کے اختیارات چند شعبوں کو چھوڑ کر سکاٹش حکومت اور سکاٹش پارلیمان کے پاس ہیں۔
برطانوی حکومت کے بنائے گئے ایسے قوانین جو پورے یونائٹڈ کنگڈم پر لاگو ہوتے ہوں، کے خلاف سکاٹ لینڈ کی پارلیمان قانون منظور کر سکتی ہے۔ مثلاً یونیورسٹی کی تعلیم اور بڑی عمر کے افراد کی دیکھ بھال سکاٹ لینڈ میں مفت کی جاتی ہے جبکہ بقیہ پورے ملک میں اس کے لیے فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ یونائٹڈ کنگڈم میں سکاٹ لینڈ پہلا ملک تھا جس نے عوامی مقامات پر تمباکو نوشی پر پابندی عائد کی تھی۔
سکاٹ لینڈ کی پارلیمان یک ایوانی ہے جس میں 129 اراکین ہیں۔
برطانوی ہاؤس آف کامنز میں سکاٹ لینڈ کے پاس 59 نشستیں ہیں۔
سکاٹ لینڈ کا قانون رومن قانون سے نکلا ہے جس میں سول لا اور کامن لا کو ملا دیا گیا ہے۔ 1707 میں انضمام کے معاہدے کے تحت یہ بات یقینی بنا دی گئی تھی کہ سکاٹ لینڈ میں اس کے اپنے قوانین ہوں گے جو انگلستان اور ویلز سے الگ ہوں گے۔ 1611 سے قبل سکاٹ لینڈ کے مختلف علاقوں میں مختلف قوانین لاگو تھے۔ 1800 تک یہ قوانین کسی نہ کسی حد تک لاگو رہے۔
سکاٹ لینڈ میں تین مختلف اقسام کی عدالتیں موجود ہیں جو سول، کرمنل اور ہیرالڈک ہیں۔
کئی دہائیوں تک سکاٹش نظام عدل اس لحاظ سے منفرد رہا تھا کہ اس میں پارلیمان نہیں تھی۔ تاہم سکاٹش پارلیمان کے قیام کے ساتھ ہی یہ خلا بھر گیا۔
سکاٹ لینڈ کا جیل کا محکمہ ملک میں موجود 8٫500 قیدیوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
سکاٹ لینڈ کا زیادہ تر رقبہ انگلستان کے جزیرے کے شمالی تہائی حصے پر محیط ہے۔ یہ جزیرہ براعظم یورپ کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس کا کل رقبہ 78٫772 مربع کلومیٹر ہے جو جمہوریہ چیک ریپبلک کے برابر ہے۔ سکاٹ لینڈ کی سرحد صرف انگلستان سے ملتی ہے۔ بحرِ اقیانوس اس کے مغربی ساحل سے جبکہ نارتھ سمندر مشرق میں ہے۔ ناروے یہاں سے 305 کلومیٹر شمال مشرق میں ہے۔
سارے کا سارا سکاٹ لینڈ پچھلے برفانی دور میں گلیشئروں کے نیچے تھا۔ اسی وجہ سے طبعی خد و خال پر گلیشئروں کا گہرا عمل دخل ہے۔ طبعی اعتبار سے ملک کے تین اہم حصے ہیں۔
بلند علاقے اور جزائر ملک کے شمال اور مغرب میں ہیں۔ سکاٹ لینڈ کا یہ علاقہ زیادہ تر قدیم چٹانوں سے بنا ہے جو کیمبریئن اور اس سے قبل کے زمانے میں وجود میں آئیں تھیں۔
یہاں بہت ساری چٹانیں ایسی بھی ہیں جن میں متحجرات یعنی فوسل پائے جاتے ہیں۔ بلند علاقے زیادہ تر پہاڑی ہیں اور جزائر برطانیہ کے زیادہ تر بلند پہاڑ یہاں موجود ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں 790 سے زیادہ جزائر بھی پائے جاتے ہیں جنہیں چار اہم گروہوں میں بانٹا گیا ہے جو شیٹ لینڈ، اورکنی، اندرونی ہیبرائڈز اور بیرونی ہیبرائڈز کہلاتے ہیں۔ میٹھے پانی کے ذخائر تالابوں اور جھیلوں کی شکل میں پائے جاتے ہیں۔
وسطی نشیبی علاقے وادئ شق پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے زیادہ معاشی اعتبار سے اہم ہیں کیونکہ ان میں لوہے اور کوئلے کے ذخائر ملتے ہیں۔ انہی ذخائر کی وجہ سے سکاٹ لینڈ میں صنعتی انقلاب میں خاصی مدد ملی تھی۔ اس علاقے میں زلزلے بھی آتے رہتے ہیں۔
جنوبی بالائی علاقے پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہیں جو تقریباً 200 کلومیٹر طویل ہے۔ اس میں جگہ جگہ چوڑی وادیاں موجود ہیں۔ اس علاقے کا بلند ترین مقام 843 میٹر بلند ہے۔
سکاٹ لینڈ کا موسم معتدل ہے اور تغیر پزیر ہے۔ گلف سٹریم یعنی خلیجی رو کی بدولت سردیاں اتنی شدید نہیں ہوتیں تاہم گرمیاں خنک ہوتی ہیں۔
عام طور پر مغربی سکاٹ لینڈ مشرقی حصے کی نسبت گرم ہوتا ہے۔ بارش کی مقدار ہر علاقے میں مختلف ہوتی ہے۔ سکاٹ لینڈ کے مغربی علاقوں میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے جو سالانہ 118 انچ سے زیادہ ہے جبکہ نشیبی علاقوں میں بارش کی مقدار 31 انچ سے کچھ ہی زیادہ ہوتی ہے۔
سکاٹ لینڈ کی جنگلی حیات شمال مغربی یورپ سے مماثل ہے تاہم ماضی میں کئی بڑے ممالیہ جانور جیسا کہ سیاہ گوش، بھورے ریچھ، بھیڑیئے، ایلک اور والرس وغیرہ کو شکار کر کے ختم کر دیا گیا ہے۔ تاہم سمندری بچھڑوں کی قابل ذکر تعداد کے علاوہ دیگر ممالک سے بہت سارے بحری پرندے یہاں افزائش نسل کے لیے آتے ہیں۔ سنہرے عقاب کو سرکاری پرندے کا درجہ دیا جاتا ہے۔
بلند پہاڑوں پر پہاڑی تیتر، پہاڑی خرگوش اور سٹوٹ وغیرہ ملتے ہیں جو سردیوں میں اپنی کھال کا رنگ سفید کر لیتے ہیں۔ سکاٹش کراس بل نامی پرندہ بھی یہاں پایا جاتا ہے اور سکاٹس چیڑ بھی یہاں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پائن مارٹن، جنگلی بلی اور جنگلی مرغ بھی پائے جاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں نئے جانور متعارف کرائے گئے ہیں جن میں سفید دم والا بحری عقاب، سرخ چیل، اود بلاؤ اور جنگلی سور اہم ہیں۔
جنگلی نباتات میں پت جھڑ کا شکار ہونے والے اور صنوبری درخت شامل ہیں۔
سکاٹ لینڈ میں مغربی طرز کی مخلوط اور کھلی معیشت ہے جو بقیہ یورپ اور دنیا سے جڑی ہوئی ہے۔ روایتی طور پر سکاٹ لینڈ کی معیشت زیادہ تر بھاری صنعتوں سے جیسا کہ جہاز سازی، کوئلے کی کان کنی اور فولاد کی تیاری وغیرہ سے مزین رہی ہے۔ تیل سے متعلقہ صنعت بھی 1970 کی دہائی سے اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
1970 کی دہائی میں صنعتی رحجان کو ختم کیا گیا اور 1980 کی دہائی میں خدمات کے شعبے پر زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔ ایڈن برگ سکاٹ لینڈ میں معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور یورپ میں اسے چھٹا نمبر ملا ہوا ہے۔
2005 میں سکاٹ لینڈ کی ساری برآمدات کا تخمینہ ساڑھے سترہ ارب پاؤنڈ لگایا گیا تھا جس میں 70 فیصد حصہ مینوفیکچرنگ سے متعلق تھا۔ بنیادی برآمدات میں وسکی، الیکٹرانکس اور معاشی خدمات سرفہرست ہیں۔ زیادہ تر برآمدات امریکا، ہالینڈ، جرمنی، فرانس اور سپین کو جاتی ہیں۔ 2006 میں تیل کی آمدنی کو ہٹا کر کل قومی آمدنی 86 ارب پاؤنڈ رہی ہے جو فی کس 16٫900 بنتی ہے۔
سکاٹ لینڈ کی معیشت میں سیاحت کو اب خاصی اہمیت حاصل ہے۔ 2002 کے اعداد و شمار کے مطابق سیاحت سے ہونے والی آمدنی کل ملکی معیشت کا 5 فیصد جبکہ کل ملازمتوں کا ساڑھے سات فیصد تھی۔
مئی 2009 میں سکاٹ لینڈ میں بے روزگاری کی شرح 6.6 فیصد تھی جو برطانیہ اور یورپی یونین کے زیادہ تر ممالک سے کم ہے۔
اگرچہ بینک آف انگلینڈ کو پورے برطانیہ میں مرکزی بینک کی حیثیت حاصل ہے تاہم تین سکاٹش بینک اب بھی اپنے سٹرلنگ چھاپتے ہیں۔ اس وقت ڈیڑھ ارب پاؤنڈ کے سکاٹش نوٹ گردش میں ہیں۔
سکاٹ لینڈ میں 5 اہم بین الاقوامی ہوائی اڈے ہیں جو 150 مختلف بین الاقوامی شہروں کے لیے پروازیں مہیا کرتے ہیں۔
سکاٹش موٹروے اور اہم ٹرنک روڈز کو ٹرانسپورٹ سکاٹ لینڈ سنبھالتی ہے۔ بقیہ سڑکوں کی دیکھ بھال مقامی طور پر کی جاتی ہے۔
سکاٹ لینڈ کی مین لینڈ سے دیگر جزائر کے لیے باقاعدہ کشتیاں اور بجرے چلتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں سے شمالی آئرلینڈ، بیلجئم، ناروے، جزائر فارو اور آئس لینڈ کے لیے بھی بحری جہاز چلتے ہیں۔
سکاٹ لینڈ میں 340 ریلوے اسٹیشن ہیں اور 3٫000 کلومیٹر طویل پٹڑی موجود ہے جن پر ہر سال 6 کروڑ 20 لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں۔
2001 کی مردم شماری کے مطابق سکاٹ لینڈ کی کل آبادی 5٫062٫011 تھی جو 2009 میں بڑھ کر 5٫194٫000 ہو گئی۔ ایڈنبرا اگرچہ دار الخلافہ ہے لیکن سب سے بڑا شہر گلاسگو ہے۔
وسطی پٹی پر زیادہ تر شہر اور قصبے آباد ہیں۔ گلاسگو مغرب میں جبکہ ایڈنبرا اور ڈنڈی مشرقی ساحل پر موجود ہیں۔ صرف ابرڈین کا شہر اس وسطی پٹی سے الگ ہے۔
قابل رسائی جزیروں پر انسانی آبادیاں موجود ہیں اور 90 سے بھی کم جزائر پر آبادی موجود ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تارکین وطن یہاں آنے لگے ہیں۔ یہاں جنوب ایشیائی افراد کی کچھ تعداد موجود ہے۔ یورپی یونین کی حالیہ توسیع کی وجہ سے یہاں اب وسطی اور مشرقی یورپ سے بھی لوگ منتقل ہونے لگے ہیں۔ اندازہ ہے کہ 40٫000 سے 50٫000 پولش افراد یہاں آباد ہیں۔ 2001 میں 16٫310 چینی آباد تھے۔ سکاٹ لینڈ میں سفید فام افراد کی تعداد تقریباً اٹھانوے فیصد ہے۔ جنوب ایشیائی ایک فیصد سے کچھ زیادہ، سیاہ فام اعشاریہ سولہ فیصد، مخلوط النسل افراد صفر اعشاریہ پچیس فیصد، چینی اعشاریہ بتیس فیصد جبکہ دیگر نسلوں کے افراد اعشاریہ انیس فیصد ہے۔
سکاٹ لینڈ میں تین زبانوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جو انگریزی، سکاٹس اور سکاٹش گیلک ہیں۔ تقریباً تمام سکاٹش افراد سکاٹ لینڈ کی معیاری انگریزی بول سکتے ہیں۔ تیس فیصد افراد سکاٹس جبکہ گیلک زبان کے بولنے والے کل آبادی کا محض ایک فیصد ہیں۔
سکاٹش النسل افراد سکاٹ لینڈ کی کل آبادی کی نسبت دیگر ممالک میں زیادہ آباد ہیں۔ 2000 کی مردم شماری میں امریکا میں تقریباً بیانوے لاکھ افراد نے کسی نہ کسی حوالے سے خود کو سکاٹش النسل قرار دیا۔ کینیڈا میں سکاٹش النسل افراد کی تعداد سینتالیس لاکھ ہے۔ امریکا میں سکاٹش اور آئرش النسل افراد کی تعداد دو کروڑ ستر لاکھ ہے۔ نیوزی لینڈ میں ابتدائی یورپی النسل تارکین وطن افراد کا چوتھائی حصہ سکاٹش لوگوں پر مشتمل ہے۔
سکاٹش تعلیمی نظام ہمیشہ سے ہی برطانیہ سے الگ رہا ہے۔ اس میں وسیع تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔ قدیم یونان کے ملک سپارٹا کے بعد سکاٹ لینڈ دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں عوام کی تعلیم کے لیے سرکاری طور پر بندوبست کیا گیا ہے۔ 1496 کے تعلیمی ایکٹ سے ملک بھر میں پہلی بار تعلیم کا حصول لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔ 1872 کے ایکٹ کے نفاذ تک تعلیم کا شعبہ ریاست کی بجائے کلیسا کے پاس ہوتا تھا۔
سکاٹ لینڈ کا تعلیمی نصاب 3 سے 18 سال تک کی عمر کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ 3 اور 4 سال کی عمر کے بچوں کے لیے مفت نرسری مہیا کی جاتی ہے۔ 5 سال کی عمر سے تعلیم شروع ہوتی ہے اور 7 سال تک جاری رہتی ہے۔ 14 سے 16 سال کی عمر کے لیے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسکول چھوڑنے کی عمر 16 سال ہے جس کے بعد طلبہ چاہیں تو اسکول چھوڑ دیں اور چاہیں تو تعلیم کو جاری رکھیں۔
سکاٹ لینڈ میں کل 14 جامعات ہیں جن میں دنیا کی قدیم ترین جامعات بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں شائع ہونے والی تحقیق کا ایک فیصد سکاٹ لینڈ سے آتا ہے جس کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 0.1 فیصد ہے۔
دو تہائی افراد نے خود کو 2001 کی مردم شماری میں مسیحی ظاہر کیا تھا۔ 28 فیصد افراد نے خود کو لادین کہا۔
سکاٹ لینڈ میں اسلام سب سے بڑا غیر مسیحی مذہب ہے جو کل آبادی کے 0.9 فیصد کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ کسی حد تک یہودی، ہندو اور سکھ بھی موجود ہیں۔
سکاٹ لینڈ میں صحت کی سہولیات قومی ادارہ برائے صحت مہیا کرتا ہے۔
ستمبر 2009 میں سکاٹ لینڈ کے قومی ادارہ برائے صحت میں کل 1٫68٫976 ملازمین تھے جن میں سے 68٫681 نرسیں اور مڈوائف تھیں۔ اس کے علاوہ 16٫256 طبی عملہ بشمول ڈاکٹر، 5٫002 دندان سازی کا عملہ وغیرہ تھا۔